22برس بعد بابری





مسلم ٹوڈے کے دسمبر شمارے میں شائع

بابری کبھی ایک مسجد کا نام ہوتا تھالیکن اب اس ملک کے سینے میں پیوست ایک خنجر کا نام ہے۔ وہ خنجر جسے لے کر
ایک پوری نسل جوان ہو گئی۔ وہ جس نے بابری کو بس تصویروں میں دیکھا ہے ، تقریروں میں سنا ہے لیکن شکر ہے کہ میں اس نسل کا نہیں ہوں۔ عمر بھلے ہی بہت کم رہی ہو لیکن میں ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے بابری کو دیکھا ہے اور بارہا دیکھا ہے۔ دیکھتا بھی کیسے نہیں، بابری اور ہنومان گڑھی دونوں والی اجودھیا سے کل 28کلو میٹر دور گاؤں کی رہائش والی میرے لئے بابری زندگی کے سنگ میلوں میں سے رہی ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ہنومان گڑھی یا رام کی پیڑی تھی۔ بچپن میں اس پار نانی کے گھر اور پھر گریجویشن کے لئے الہ آباد جانے کے بعد وہ میل کا پتھر جنہیں پار کرنا ہی ہوتا تھا، جن سے ہزاروں یادیں وابستہ تھیں۔

اس وقت بابری حیران کرتی تھی کہ اخباروں میں جب تک اس کا ذکر آتا تھا کہ بابری تھی ، اس اجودھیا میں جس میں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا تھا۔ اجودھیا کے پار ہم تھے ، اس بستی میں پھر سے جہاں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا تھا۔ بابری حیران کرتی تھی کہ شہر میں سب سے زیادہ لوگوں کو روٹی رام نامی اور کھنڈاؤ بنا کے فروخت کرنے سے ملتی تھی اور یہ دونوں ہی کام بیشتر مسلمان کرتے تھے۔ اس وقت سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سریو کے کنارے بسے اس چھوٹے سے مفصل قصبے میں اس ذرا سی عمارت کے لئے پورے جنوبی ایشیا میں فساد کیوں ہوتے رہتے ہیں، لیکن پھر اس وقت یہ بھی کہاں پتہ تھا کہ یہ عمارت ذرا سی عمارت نہیں سینکڑوں سالوں کا ماضی اپنے اندر سمائے ہوئے گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہے۔اس تہذیب کا جس میں ذات پات سے لے کر ہزاروں برائیاں تھیں لیکن کم سے کم مذہب کے نام پر پھیلایا جانے والا زہر نہیں تھا۔ بے شک اس وقت بھی لوگ کبھی کبھی لڑ لیتے تھے ۔ اپنی اچھائیاں اور برائیاں دونوں سمیٹے بیٹھے عام سے لوگ تھے۔ آخر، دنیا میں ہر جگہ لڑتے ہیں، لیکن پھر وہ لڑائیاں ختم ہو جاتی تھیں، ایک دوسرے سے افسوس جتا کر لوگ پھر ایک ہو جاتے تھے۔


ہاں، بابری کو دیکھتے ہوئے کبھی ڈر نہیں لگتا تھا۔ ٹھیک ہے کہ ہر اگلی بار گزرنے کے وقت خاکی وردیاں تھوڑی اور بڑھ
گئی ہوتی تھیں، ہر بار بڑوں کی آنکھوں میں تھوڑا اور تناؤ ، تھوڑا اور ڈر بیٹھ جاتا تھا لیکن بس بات اتنے پر ہی ختم ہو جاتی تھی۔ لوگوں کو یقین ہوتا تھا کہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، ایک دن فیصلہ ہو ہی جائے گا۔ لیکن پھر ایک دن فیصلہ تو ہوا لیکن عدالت یہ فیصلہ عدالت نے نہیں کیا بلکہ ہندو مذہب کے خودمختار ٹھیکیداروں نے کیا۔ تیاری تو وہ بہت پہلے سے کر رہے تھے اور افسوس کہ اس تیاری میں اس وقت کی حکومتیں ان سے لڑ نہیں رہی تھیں بلکہ ان کی مدد کر رہی تھیں۔ 6دسمبر 1992کو بابری مسجد شہید کر دی گئی تھی لیکن بس اسی دن نہیں کی گئی۔ بابری 1949میں اس وقت بھی شہید کی گئی تھی ، جب راتوں رات ایک تالہ بند کمرے میں بھگوان رام کی مورتی رکھ دی گئی تھی پھر 1986میں بھی جب ڈسٹرک جج نے متنازعہ جگہ پر تالے کھول کر ہندوؤں کو پوجا کا اختیار دے دیا تھا، اسی جج نے جو بعد میں بی جے پی کا ممبر پارلیمنٹ ہوا۔ بابری 1989میں بھی شہید ہوئی تھی جب اس وقت کی کانگریس حکومت نے متنازعہ جگہ کے عین بغل میں وشو ہندو پریشد کو شیلا پوجن (بنیاد رکھنے) کی اجازت دے دی تھی۔ 6دسمبر 1992کو تو بس یہ ہوا تھا کہ بابری کے ساتھ ساتھ بہت کچھ شہید ہو گیاتھا۔ جس میں امن، گنگا جمنی تہذیب اور لوگوں کا ایک دوسرے کے تئیں اعتماد شامل ہے۔

لیکن اس سے بھی بڑا کچھ اور تھا جس پر اس دن حملہ ہوا تھا اور وہ حملہ تھا ملک کے انصاف اور حق پرستی کی روایتوں پر ۔ بابری ایسے ہی شہید نہیں کر دی گئی تھی۔ بابری کے شہید ہونے کے ایک دن پہلے صوبے کے اس وقت کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے سپریم کورٹ کو تحریری حلف نامہ دیا تھا کہ وہ بطور وزیر اعلیٰ بابری کی حفاظت کریں گے۔ سپریم کورٹ اور اس وقت کی کانگریس کی مرکزی حکومت نے اس حلف نامے پر بھروسہ کیا اور پھر کلیان سنگھ کی سرپرستی اور لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا اور ونے کٹیار جیسے بی جے پی؍وشو ہندو پرشید کے تمام قدآور لیڈروں کی موجودگی میں بابری مسجد منہدم کر دی گئی ۔ پھر اس حلف نامے کا کیا ہوا؟ سپریم کورٹ نے اس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ سپریم کورٹ نے کارروائی کی۔ سالوں بعد کلیان سنگھ کو عدالت کی توہین کرنے کے لئے ایک دن کے لئے جیل بھیجنے کی سخت کارروائی کی گئی۔ ابھی کلیان سنگھ کہاں ہیں؟ ابھی کلیان سنگھ ہندوستان کے سب سے بڑے آئینی عہدوں میں سے ایک گورنر یعنی راجستھان کے گورنر ہیں۔6دسمبر 1992کو اس ملک کی اقلیت کا سپریم کورٹ سے ، انصاف سے بھروسہ بچ بھی گیا تو بھی اب وہ اسی اعتبار کے ساتھ کہہ پانا ذرا مشکل ہے۔

سوال صرف کلیان سنگھ کا نہیں تھا۔ بعد میں صاف ہو ہی گیا کہ بابری مسجد کو شہید کرنا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی ساز تھی۔ وہ سازش جس میں حلف نامہ دے کر مرکزی حکومت کو کار سیوکوں کے آنے سے قبل اتر پردیش کے نظام کو برخاست کرنے سے بچا جا سکے۔ مان بھی لیں کہ اس سازش میں مرکزی اور نرسمہا راؤ شامل نہیں تھے تو بابری مسجد پر حملے کے بعد انھوں نے فوراً کارروائی کیوں نہیں؟ بابری کوئی چھوٹی موٹی عمارت نہیں تھی بلکہ 400سال پرانی ایک مضبوط عمارت تھی ، ایسی مضبوط کہ اسے منہدم کرنے میں گھنٹوں لگے تھے۔ نرسمہا راؤ حکومت حملہ ہوتے ہی صدر راج نافذ کر سکتی تھی، لیکن نہیں اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے کلیان سنگھ کے استعفیٰ کا انتظار کیا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ مرکزی حکومت کے پاس فیض آباد میں وسائل نہیں تھے۔ کمشنری ہیڈ کوارٹر ہونے کے ساتھ ساتھ فیض آباد ہندوستان کی ڈوگرا ریجیمنٹ کا صدر دفتر بھی ہے اور بابری کی حفاظت میں انہیں موبلائز کرنے میں وقت نہیں لگتا۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ لوگوں کا ، اقلیتوں کا ہی صحیح، انصاف سے ، عدالتون سے ، حکومت سے اعتماد ٹوٹ جائے تو بہت کچھ ٹوٹ جاتا ہے۔ اڈوانی کی رتھ یاترا نے اپنے پیچھے ہوئے فسادوں میں خون کی ایک ندی چھوڑی تھی۔ بابری کی شہادت نے اس ندی کو سمندر میں بدل دینا تھا۔ 6دسمبر 1992کے گھنٹوں بھر بعد ملک سلگ اٹھا تھا اور اس آگ نے کم سے کم 2000ہندوستانیوں کو نگل لیا تھا، لیکن پھر یہ تعداد 2000بھی کہاں؟ اس کے بعد کے تمام فساد دھیرے دھیرے قتل عام میں بدلنے لگے تھے اور اقلیتوں کا غصہ انتقام میں۔ مجھے سازش کے اصولوں پر یقین نہیں پر میں جانتا ہوں کہ1992کے پہلے باہر گئے بیٹے کی ماں، بیوی کا شوہر بم دھماکوں کے ڈر سے پریشان نہیں رہتا تھا۔ ہندوستان نے اس کے پہلے بھی تمام حادثے دیکھے تھے پر وہ ان کی سوچ کا حصہ نہیں بنا تھا۔ خالصتان اور آپریشن بلو اسٹار دونوں ہو کر گزر چکے تھے لیکن ان کی لپٹیں پنجاب اور دہلی کے باہر تک نہیں پہنچی تھیں۔ اب کی والی آگ کی زد میں پورا ہندوستان تھا۔

لیکن پھر صرف ہندوستان بھی کہاں؟ اس دن کے بعد سے وہ سویا سا قصبہ قصبہ نہیں، پورے جنوبی ایشیا میں ڈر کا دوسرا نام بن گیا ۔ نہ صرف ہندوستان کی مسلم اقلیت کے لئے ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی ہندو اقلیت کے لئے بھی۔ یہاں کچھ اور بنگلہ دیش کے ہندوؤں میں دہشت پھیل جائے گی۔ پھیلے بھی کیسے نہیں، یہاں کی ایک مسجد، جس میں عبادت تک بند تھی کا بدلا بنگلہ دیش کے فسادیوں نے ، پاکستان کے فسادیوں نے اپنے یہاں کے ہندوؤں سے جو لیا تھا۔ بابری کی شہادت پر ۔ بعد میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر ہندوتوادیوں کے ابھار پر پہلے بھی بہت بار لکھا ہے جو نہیں لکھا ہے وہ یہ کہ جب بابری منہدم کی گئی اس وقت میں آر ایس ایس کے بنائے گئے سرسوتی ششو مندر میں پڑتا تھا ، اسی کے ہوسٹل میں رہتا تھا۔ ششو مندروں کے ہوسٹلوں میں شاکھا جانا لازمی ہوتا ہے ،تو شاکھا بھی جاتا تھا۔ کھیلنا کودنا اچھا لگتا تھا۔ دانشوری میں آنے والی حب الوطنی ، ہم آہنگی جیسے الفاظ کو سن لگتا تھا کہ یہ بھلے لوگ ہیں۔ ویسے بھی 13سال کی عمر بہت کچھ جاننے سمجھنے کی کہاں ہوتی ہے؟ لیکن اس دن ہواؤں میں اتر آیا تناؤ آج بھی یاد ہے۔ آر ایس ایس کا اسکول ہونے کی وجہ سے معاملہ حساس تھا، بابری پر حملہ ہوتے ہوتے توپولس نے حفاظت کے لئے پوری طرح سے گھیر لیا تھا پھر شام تک پرنسپل صاحب (استادوں) کے چہرے پر اتر آئی مسکراہٹ نے بہت کچھ صاف کر دیا تھا۔ ہاں اس دن شاکھا نہیں آر ایس ایس پر پابندی لگی تھی پھر ہم لوگ اندر بلائے گئے کہ آج شاکھا اندر لگے گی۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میں نے بس اتنا پوچھا کہ اپنی تھی تو کیوں منہدم کر دی؟ کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیوں نہیں کیا؟ ان کی تھی تو کیوں منہدم کر دی۔

یہ اپنے ہم اور ان کے فرق سے پڑے انسان بننے کی راہوں پر چلنے کی شروعات تھی۔ اس دن دل سے آر ایس ایس کے اچھا ہونے کے یقین کو بھی دھچکا لگا تھا ۔

آج سالوں بعد بابری کو یاد کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ اپنی ہندوستانی قوم کی دقت بس اتنی ہے کہ وہ ماضی کو زیادہ دیر یاد نہیں رکھتی۔ ملک کی تقسیم یاد رکھی ہوتی تو اس میں بہا خون یاد رکھا ہوتا تو شاید 1984نہ ہوتا۔ 1984یاد رکھا ہوتا تو شاید 1992نہ ہوتا۔ ہاں 1992کے بعد کی کہانی الگ ہے۔ اس کے بعد کی کہانی ہندوستان کے ہندو پاکستان بننے کی راہ پر چل پڑنے کی کہانی ہے۔ وقت اب بھی ہے، کاش ہم روک پائیں۔

Comments

  1. समर भाई॥
    कोई लफ़्ज नहीं आपकी इस बेबाक और मुंसिफाना तहरीर की तारीफ के लिए ।

    ReplyDelete
  2. Samar bhai.. Please update the Hindi or English translation.

    ReplyDelete
  3. हिंदी अनुवाद यहाँ है- http://www.mofussilmusings.com/2014/12/22_6.html

    ReplyDelete

Post a Comment