پشاور، پاکستان اور اسلام کی جدوجہد

ماہنامہ مسلم ٹوڈے میں شائع
کسی قتل عام سے القاعدہ کا سینہ ’ دکھ اور درد سے چھلنی ہو جائے‘ یہ حادثہ روز نہیں ہوتا، لیکن پھر پشاور میں فوجی
اسکول پر حملہ کر کے 138بچوں سمیت 150سے زائد لوگوں کا وحشیانہ قتل کرنا اور اسے جائز ٹھہرانا ، یہ حادثہ بھی تو روز نہیں ہوتا، لیکن اندھیری گلی کے آخر میں نظر آنے والی روشنی پشاو رکے وحشیانہ حملے کے بعد بھی نظر آ رہی ہے۔ یہی روشنی پاکستان کو دہشت گردی کی اس بند گلی سے نکال سکتی ہے، جس کا مہانہ ایک ناکام قوم بننے کے مقدر میں کھلتا ہے۔
اس روشنی کی تمام تہوں میں پہلی یہ ہے کہ اس نے طالبان کے حامی عام شہریوں سے لے کر حکمرانوں تک کا منھ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا ہے۔ کل تک طالبان لڑکوں کو شہید بتانے الے عمران خان جیسے لوگ اس ’حملے کی ذمہ داری لینے والے ‘ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی بشرطہی صحیح مذمت کرنے کو مجبور ہوئے ہیں۔ یہ پاکستان کے لئے اچھی خبر ہے۔ ا س میں لال مسجد کے نام پر دہشت گردی کا اڈہ چلانے والے مولانا عبدالعزیز کے پہلے ملے کو مناسب ٹھہرانا اور پھر عوام کے غصے کے بعد معافی مانگتے ہوئے ٹی ٹی پی کی مذمت کو مجبور ہونا جوڑ لیں۔ واضح ہے کہ جنرل جیا ء الحق کے بعد سے مسلسل بنیاد پرست ہوتے گئے پاکستان میں اعتدال پسند طاقتوں کے لئے موقع کی جیت ہی نہیں ، آگے کی لڑائی کی شروعات کا موقع بھی ہے۔
سرکاروں کے لئے دہشت گرد عوام یا کم سے کم عوام کے ایک حصے کے لئے مجاہدین آزاد ی ہو سکتے ہیں، ہوتے رہے ہیں ، لیکن سرکاروں کے ساتھ ہتھیار بند لڑائی اور دہشت گردانہ واقعات میں واضح فرق ہے۔ آزادی کے مجاہد بے گناہ اور غیر مجاہد آبادی پر حملے نہیں کرتے۔ اس حصے پر حملہ کرنے والے دہشت گردکے سوا کچھ نہیں ہو سکتے۔مضحکہ خیز پہلو یہ ہے کہ اس حملہ کی چار صفحات پر مبنی مذمت میں یہ بات القاعدہ کو بھی ماننی پڑی ہے۔ اس نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے غلام بن کر مسلمانوں کے قتل عام میں سب سے آگے پاکستانی فوج کی حرکتوں کا بدلا دبے کچلے مسلمانوں سے نہیں لیا جا سکتا۔ القاعدہ کی جنوبی ایشیائی شاکھ کے ترجمان اسامہ محمود کے ذریعہ جاری اس بیان میں یہ بھی دہرایا گیا ہے کہ اس کی لڑائی امریکہ کے پٹھوؤں سے ہے اور وہ بچوں ، خواتین اور اپنے مسلمان لوگوں کو نشانہ نہیں بناتا ہے۔ بھلے ہی اس مضحکہ خیز جھوٹ کے لئے القاعدہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے لے کر بالی حملوں تک میں مارے گئے لوگوں پر اس نے کوئی مقدمہ چلا کر انہیں قصوروار پایا تھا، لیکن حملے کے اگلے ہی دن آ ئی افغان طالبان کی مذمت کے برعکس ہفتے بھر کے بعد ہی صحیح اس مذمت کے معنی بہت ہیں۔
یہ شاید پہلی بار ہے جب جہادی اسلام ایک انتہائی جدوجہد کے دور سے گزرتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔ گوکہ اس لڑائی
کے اشارے القاعدہ کے ذریعہ اسلامک اسٹیٹ کو باضابطہ طور پر خود سے الگ کرنے کے دور سے ہی ملنے لگے تھے، لیکن اب صورتحال مزید واضح ہو گئی ہے۔جہادی اسلام اب خود سے پوچھتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ مذہب کے نام پر کتنا تشدد کیا جا سکتا ہے، کتنی بے رحمی اور وحشی پنے پر اترا جا سکتا ہے، لیکن پھر افسوس، یہ حملہ نہ توپہلا تھا اور نہ ہی یہ آخری ہونے جا رہا ہے۔ پاکستان کے کارکن ہڈ بائے کے الفاظ میں کہیں تو ہکی ماروات میں والی بال میچ دیکھ رہے ناظرین پر فدائین حملے میں 105لوگوں کے مارے جانے کے بعد کچھ نہیں بدلا تھا۔ ایک اسنوکر میں خودکش حملے میں96ہزار لوگوں کے مارے جانے کے بعد بھی۔ پشاور میں ہی آل سینٹس چرچ دھماکے میں مارے گئے 127لوگ ہوں یا عبادت کرتے وقت مارے گئے 90سے زیادہ احمدی۔ اب بس سوکھے اعداد و شمار ہیں۔ پاکستان میں اگر کوئی اجتماعی خود احتسابی یا عقل و شعور ہوتا تو ان میں سے کوئی ایک ہی اسے جھنجھوڑ دینے کے لئے کافی تھا۔
لیکن نہیں، اس حملے نے بہت کچھ بدلا ہے۔ پاکستان میں اعتدال پسند ساتھیوں کی لڑائی کی قیمت اپنی جان سے ادا کی ہے، لیکن پھر جہادی منافرت کے اڈے لال مسجد پر ہی محاذ کھولنے کے فیصلے پر بیشتر لوگوں کی خاموشی ہی صحیح حمایت دینا بتا رہا ہے کہ اس واقعہ نے تصویر کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ لوگوں کو سمجھ آ رہا ہے کہ ہندو، عیسائی اور احمد اقلیتی فرقوں کے خلاف جہاد کے نام پر ہو رہے تشدد کا رخ شیعہ اور ہزارہ فرقہ کی طرف سے مڑ جانا پہلا انتباہ تھا۔ وہ انتباہ نہ سننا اس تشدد کو وہاں لے آیا ہے، جہاں پاکستان میں کوئی محفوظ نہیں ہے، نہ عوام نہ اسلام...
بات عجیب لگی ہو تو یاد کریں کہ پشاور کے قاتلوں نے کیسے ایک خاتون پرنسپل کو کرسی سے باندھ کر اسے زندہ جلا دیا، اس اسلام کی بات کرتے ہوئے جس میں مرنے کے بعد بھی جلانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ بھی کہ کیسے انھوں نے مارنے سے قبل بچوں کو کلمہ پڑھوایا، ان کے ساتھ ’جن آٹھ کو بچنا ہے وہ بار آ جائیں‘ جیسے دماغی کھیل کھیلے۔ حد یہ ہے کہ قتل عام کے بعد جب پاکستان ہی نہیں پوری صدمے میں تھی (القاعدہ کو ایک ہفتہ لگنا تھا) اس وقت بھی ٹی ٹی پی کا ترجمان اسے جائز اور اسلامی بتا رہا تھا۔ مبینہ طور پر صحیح بخاری ، پانچ کی 148ویں حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حملہ آوروں کو صرف بڑے بچوں کو مارنے کا حکم تھا۔
ہم لاکھ کہتے رہیں کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اسلام کا جہادیوں کے ذریعہ ہائی جیک کیا جانا ہی وہ نقطہ ہے ، جس سے متاثر ہوئے بنا نہ پاکستان کو دہشت گردی سے نجات مل سکتی ہے اور نہ دنیا کو۔ نائیجریا میں بوکو حرام ، لیوانت میں اسلامکا سٹیٹ، کینیا میں الشباب یہ سبھی دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف اسلام کے نام پر لڑ رہی ہیں بلکہ اپنے حملوں کو انصاف پسند ٹھہرانے کے لئے قرآن اور حدیث کی دہائی بھی دیتی ہیں۔ جب تک انہیں قرآن کے ایسے بیجا استعمال سے روکا نہیں جائے گا، اسلام کو ماننے والے معصوم لوگ ان کے جال میں پھنستے رہیں گے۔ صومالیا کی مسلم مصنفہ عیان ہرسی کی بات ذرا سی بدل کر کہیں تو اسلام میں ہو یا نہ ہو، اسلامی سماج کے اندر بہت کچھ گڑ بڑ ہے اور اسلام کے لئے اس گڑبڑ سے متاثر ہونا ہی ہوگا۔
لگتا نہیں کہ پاکستان اس لڑائی کے لئے تیار ہے۔ پہلے یہی کہ اسی کی لگائی ہوئی یہ آگ اسے بہت حد تک جلا چکی ہے۔ حکومت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کون دشمن ہے اور کون دوست۔ یہ طالبانی پاک فوج کی نقلی وردیاں پہنچ کر آئے تھے، لیکن آنجہانی گورنر سلمان تاثیر کو مارنے والے سیکورٹی گارڈ کی وردی اصلی تھی۔ حقانی نیٹ ورک کتنا بڑا ہے کسی کو نہیں معلوم۔ ان جہادیوں سے کوئی کیسے لڑ سکتا ہے جو ریاست کے ادارہ جاتی ڈھانچے کے ہر حصے میں شامل ہیں؟ پھر وزیر اعظم نواز شریف کے خارجی امور کے صلاح کار سرتاج عزیز کی بات سنئے ’پاکستان ان دہشت گرد تنظیموں کو نشانہ نہیں بنائے گا جو (پاکستان) ملک کے لئے خطرہ نہیں ہے، مزید تصویر واضح ہو جاتی ہے۔ ان تنظیموں میں حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ جیسی تنظیمیں شامل ہیں جو پورے پاکستان میں گھوم گھوم کے نفرت پھیلاتے ہیں اور جہاد کی مشین کے لئے جنگجو تیار کرتی ہیں۔
طرہ یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے ذریعہ پاکستان کو اسلامی ملک بنانے کی کوششوں سے شروع یہ سلسلہ اب صرف فوج، پولس یا سیکورٹی اہلکاروں تک محدود نہیں ہے۔ نسواں مخالف حدود قوانین سے شروع ہو کر توہین رسالت قانون بنانے کے اس سفر نے پاکستانی عدلیہ میں بھی خوب زہر بھرا ہے۔ یاد کریئے کہ رنکل کماری کے اغوا اور جبراً مذہب تبدیلی کے معاملہ میں پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے مسجد میں ملزمین سے ملاقات کی تھی۔ یہ بھی کہ کیسے توہین رسالت کے ایک معاملہ میں وکلاء نے ملزم کے حق میں فیصلہ دینے والے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو دھمکا کر فیصلہ بدلوا لیا تھا۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ جب ججوں کا یہ حال ہے تو وکیلوں کی حالت کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ عاملہ کی صورتحال بھی کوئی الگ نہیں ہے۔
ایسے حالات میں کارروائی کو صرف خیبرپختونخواہ، فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹریٹیو ٹرائبل ایریاز) ، افغانستان کے سرحدی علاقے اور کچھ حد تک کراچی اور اسلام آباد تک محدود رکھنے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ جہادی پورے پاکستان میں ہیں اور حکومت کو ان سے نمٹنا بھی پورے پاکستان میں پڑے گا۔ افسوس کہ یہ کام سوشل میڈیا پر عام شہریوں کے غصے کے بس کا نہیں ہے، یہ صرف حکومت پاکستان کر سکتی ہے اور وہ اس کے لئے تیار نظر نہیں آتی۔ ایسی صورت میں یہ ایک ہاری ہوئی لڑائی کو تھوڑا ور ہارجانے کا معاملہ بنتا نظر آ رہا ہے۔
آخر میں سب سے بڑا افسوس یہ کہ دنیا کے دیگر مسلم ممالک کے علاقوں میں اس وحشیانہ حملے کے خلاف غصہ ویسا نظر نہیں آیا جیسا غزہ یا پیغمبر ؐ کے کارٹونوں کے خلاف نظر آ یا تھا۔ معقول مسلم آبادی والے ہندوستان کے ہر شہر میں اس وقت ہوئے مظاہروں کے برعکس اس بار کی خاموشی افسوسناک ہے۔یہ اسلام کے لئے بھی جدوجہد کا وقت ہے۔یہ سمجھنے کا وقت ہے کہ دنیا کی کوئی کتاب اتنی پاک نہیں ہو سکتی کہ اس کے نام پر لوگوں کے قتل کو صحیح ٹھہرایا جا سکے۔یہ بھی کہ کسی کتاب کے نام پر معصوموں کا خون بہانے والوں پر خوشی نہیں رہا جا سکتا۔ایسی ہر خاموشی ان کے حوصلے ہی بلند نہیں کرتی بلکہ اپنے ملک کے اندر کی ویسی طاقتوں کو تقویت بھی دیتی ہے ۔ پاکستان کے عوام نے اس بڑی اور ضروری لڑائی میں اپنے لئے تھوڑی سی زمین بنا لی ہے۔ باقی دنیا کے ہر انسان، خصوصاً مسلمانوں کو طے کرنا ہوگا کہ اس مشکل وقت میں پاکستان کے عوام کے ساتھ کھڑنا ہونا ہے یا اپنی خاموشی لے کر طالبان کے ساتھ۔ 

Comments